دل تنگ اس میں رنج و الم شور و شر ہوں جمع

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل تنگ اس میں رنج و الم شور و شر ہوں جمع
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

دل تنگ اس میں رنج و الم شور و شر ہوں جمع
چین آئے خاک گھر میں جب اتنے ضرر ہوں جمع

دل میں جو فرق ڈال دیا ہے رقیب نے
ہو جائے بر طرف کہیں ہم تم اگر ہوں جمع

جس نے کیا ہے قتل وہی آئے نعش پر
کیا فائدہ ہے یوں جو ہزاروں بشر ہوں جمع

آئے نہ کام ایک بھی بے یارئ نصیب
گو ذات میں کسی کے ہزاروں ہنر ہوں جمع

جاتا ہے یار مانگیں نشانی تو کس طرح
اپنے کہیں حواس بھی وقت سفر ہوں جمع

لکھی غزل تو خوب مگر یہ ضرور ہے
پڑھنا تب اس کو سحرؔ جب اہل ہنر ہوں جمع

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse