دل بے تاب کو کب وصل کا یارا ہوتا
دل بے تاب کو کب وصل کا یارا ہوتا
شادیٔ دولت دیدار نے مارا ہوتا
شب غم زہر ہی کھانے کا مزہ تھا ورنہ
انتظار سحر وصل نے مارا ہوتا
شب ہجراں کی بلا ٹالے نہیں ٹلتی ہے
بھور کر دیتے اگر زور ہمارا ہوتا
آئی جس شان سے مدفن میں سواری میری
دیکھتے غیر تو مرنا ہی گوارا ہوتا
کیوں نہ سینے سے لگی رہتی امانت تیری
داغ دل کیوں نہ ہمیں جان سے پیارا ہوتا
سر جھکائے تری امید پہ بیٹھے ہیں ہم
قاتل اس بار امانت کو اتارا ہوتا
ایک ہو جاتی ابھی کافر و دیں دار کی راہ
اگر ان جٹی بھوؤں کا اک اشارا ہوتا
بھیگتی جاتی ہے رات اور ابھی صحبت ہے گرم
جام لب ریز اسی عالم میں ہمارا ہوتا
نگہ لطف سے محروم ہوں اب تک ساقی
صف آخر کی طرف بھی اک اشارا ہوتا
دور سے ساغر و مینا کو کھڑا تکتا ہوں
دل کوئی رکھتا تو مجھ کو بھی پکارا ہوتا
دور اتنی نہ کبھی کھنچتی عدم کی منزل
کاش کچھ نقش قدم ہی کا سہارا ہوتا
یاس اب آپ کہاں اور کہاں بانگ جرس
کون اس وادئ غربت میں تمہارا ہوتا
دیکھتے رہ گئے یاسؔ آپ نے اچھا نہ کیا
ڈوبتے وقت کسی کو تو پکارا ہوتا
صورت ظاہری اک پردۂ تاریک تھی یاسؔ
حسن معنی کا کن آنکھیوں سے نظارہ ہوتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |