دل بے تاب مرا وہ نہ پھنسانے پائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل بے تاب مرا وہ نہ پھنسانے پائے
by داغ دہلوی

دل بے تاب مرا وہ نہ پھنسانے پائے
دو ہی جھٹکے جو ذرا زلف دوتا نے پائے

ہاتھ پائی ہوئی میخانے میں زاہد سے کہیں
ہم نے تسبیح کے بکھرے ہوئے دانے پائے

چھیڑ منظور نہ ہو تجھ کو تو مژگاں تیری
دل بے تاب کو انگلی نہ لگانے پائے

جل گیا کیا مری آتش قدمی سے جنگل
چار تنکے نہ کہیں باد صبا نے پائے

ہم نے اپنا دل گم گشتہ نہ پایہ کھو کر
ورنہ یاں ڈھونڈھنے والوں نے خزانے پائے

لا شب وعدہ اسے کھینچ کے اے جذبہ دل
حیلہ جو پاؤں میں منہدی نہ لگانے پائے

حور کے واسطے زاہد نے عبادت کی ہے
سیر تو جب ہے کہ جنت میں نہ جانے پائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse