دل بہلنے کا جہاں میں کوئی ساماں نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل بہلنے کا جہاں میں کوئی ساماں نہ ہوا
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

دل بہلنے کا جہاں میں کوئی ساماں نہ ہوا
اپنا ہمدرد کبھی عالم امکاں نہ ہوا

شکوۂ ہجر نہ بھولے سے بھی آیا لب پر
روبرو ان کے میں خود کردہ پشیماں نہ ہوا

ہم نشیں پوچھ نہ حال دل ناکام ازل
یہی حسرت رہی پورا کوئی ارماں نہ ہوا

بے خودی میں یہ ہے عالم ترے دیوانوں کا
فصل گل آئی مگر چاک گریباں نہ ہوا

کوئی کیا جانے کہ کیا لطف خلش ہے حاصل
میرا ہی دل ہے کہ منت کش درماں نہ ہوا

یوں تو ہمدرد زمانہ تھا بظاہر لیکن
کسی صورت سے علاج غم پنہاں نہ ہوا

بے دھڑک جانے کی ہمت نہ ہوئی محشر میں
منہ چھپانے کے لیے دست بہ داماں نہ ہوا

دل بہلتا بھی تو کس طرح بہلتا شب غم
ساز و ساماں نہ ہوا نغمۂ حرماں نہ ہوا

پرسش حال پہ آنکھوں میں بھر آئے آنسو
ایسے مجبور ہوئے ضبط بھی آساں نہ ہوا

ذرہ ذرہ سے عیاں حسن کی رعنائی ہے
وہ حسیں تو ہے کہ پردوں میں بھی پنہاں نہ ہوا

میں تھا مشتاق ترے جلوے کا اے مایۂ حسن
رہ کے پردہ میں بھی تو شعلۂ عریاں نہ ہوا

چین سے قید تعین میں بسر کی اے شوقؔ
دل بھی جمعیت خاطر سے پریشاں نہ ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse