دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
by مومن خان مومن

دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
پالا پڑا ہے ہم کو خدا کس بلا کے ساتھ

کب تک نبھائیے بت ناآشنا کے ساتھ
کیجے وفا کہاں تلک اس بے وفا کے ساتھ

یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گل کھلائے
آئی چمن سے نکہت گل جب صبا کے ساتھ

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ

یا رب وصال یار میں کیونکر ہو زندگی
نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہر ادا کے ساتھ

اللہ رے سوز آتش غم بعد مرگ بھی
اٹھتے ہیں میری خاک سے شعلے ہوا کے ساتھ

سو زندگی نثار کروں ایسی موت پر
یوں روئے زار زار تو اہل عزا کے ساتھ

ہر دم عرق عرق نگہ بے حجاب ہے
کس نے نگاہ گرم سے دیکھا حیا کے ساتھ

مرنے کے بعد بھی وہی آوارگی رہی
افسوس جاں گئی نفس نارسا کے ساتھ

دست جنوں نے میرا گریباں سمجھ لیا
الجھا ہے ان سے شوخ کے بند قبا کے ساتھ

آتے ہی تیرے چل دیئے سب ورنہ یاس کا
کیسا ہجوم تھا دل حسرت فزا کے ساتھ

میں کینے سے بھی خوش ہوں کہ سب یہ تو کہتے ہیں
اس فتنہ گر کو لاگ ہے اس مبتلا کے ساتھ

اللہ ری گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ

مومنؔ وہی غزل پڑھو شب جس سے بزم میں
آتی تھی لب پہ جان زہ و حبذا کے ساتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse