دل بر یہ وہ ہے جس نے دل کو دغا دیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل بر یہ وہ ہے جس نے دل کو دغا دیا ہے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

دل بر یہ وہ ہے جس نے دل کو دغا دیا ہے
اے چشم دیکھ تجھ کو میں نے سجھا دیا ہے

تیغ ستم سے میرا جو خوں بہا دیا ہے
قاتل نے میرے دل کا یہ خوں بہا دیا ہے

نقش قدم گلی کا تیری بنا دیا ہے
کیوں کر اٹھوں کہ دل نے مجھ کو بٹھا دیا ہے

اے چشم گر یہ زا ہے رونے کو تیرے زحمت
رو رو کے ابر کو بھی تو نے رلا دیا ہے

سر رشتۂ وفا سے کیا شمع رو ہیں واقف
ہم نے پتنگ ان سے ملنا اڑا دیا ہے

دل دے کے جان کا مفت اک روگ ہی خریدا
دولت سے تیری میں نے یہ کچھ لیا دیا ہے

جاتے نظر جدھر ہی اک نور جلوہ گر ہے
مکھڑے سے آج پردہ کسی نے اٹھا دیا ہے

تو پان کھا کے ہنسنا اک سہل سا ہے سمجھا
یہ برق وہ ہے جس نے عالم جلا دیا ہے

کیوں ہم سے ہو بگڑتے ہم نے تو شیخ صاحب
ہولی سے پیشتر ہی تم کو بنا دیا ہے

کیوں کر نہ میرے دل کا شیشہ ہو ٹکڑے ٹکڑے
نظروں سے اس کو ظالم تو نے گرا دیا ہے

پاؤں سے کیا جگایا تو نے ہی مجھ کو گویا
ٹھوکر سے بخت خفتہ میرا جگا دیا ہے

کیا جانوں عشق کیا ہے لیکن کسی نے احساںؔ
اک آگ کا سا شعلہ دل کو لگا دیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse