دل بر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل بر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں  (1920) 
by علیم اللہ

دل بر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں
پیتم کو اپنے پیت سوں گلہار کر رکھوں

ایک نوم سوں جگاؤں اگر مردہ دل کے تئیں
تا حشر یاد حق منے بیدار کر رکھوں

رہتا ہے دل ہر ایک کا ہر ایک کام میں ایک
اپنا خیال صورت پرکار کر رکھوں

دستا ہے مجھ کو یار کا رخسار گل عذار
تس کی خوشی سوں طبع کو گل زار کر رکھوں

منکے کو من کے لاؤں پھرانے کا جب خیال
تسبیح بدن کی توڑ کے ایک تار کر رکھوں

پیتم کے باج نہیں ہے مرا اختیار کچھ
مجھ دل کو تس کے امر میں مختار کر رکھوں

بے سر اگر اچھے تو اسے سر کروں عطا
دونوں جہاں میں صاحب اسرار کر رکھوں

اندھے کے تئیں علیمؔ لگا عشق کا انجن
سب واصلاں میں واصل دیدار کر رکھوں

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse