دل بر سے ہم اپنے جب ملیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل بر سے ہم اپنے جب ملیں گے
by میر حسن دہلوی

دل بر سے ہم اپنے جب ملیں گے
اس گم شدہ دل سے تب ملیں گے

یہ کس کو خبر ہے اب کے بچھڑے
کیا جانیے اس سے کب ملیں گے

جان و دل و ہوش و صبر و طاقت
اک ملنے سے اس کے سب ملیں گے

دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا
یاں لوگ عجب عجب ملیں گے

ظاہر میں تو ڈھب نہیں ہے کوئی
ہم یار سے کس سبب ملیں گے

ہوگا کبھی وہ بھی دور جو ہم
دل دار سے روز و شب ملیں گے

آرام حسنؔ تبھی تو ہوگا
اس لب سے جب اپنے لب ملیں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse