دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا
by شاد عظیم آبادی

دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا
دریا سے یہ موتی نکلا تھا دریا ہی میں جا کر ڈوب گیا

احوال جوانی پیری میں کیا عرض کروں اک قصہ ہے
وہ طرز گئی وہ وضع گئی انداز گیا اسلوب گیا

لا ریب خموشی نے تیری تاثیر دکھا دی مستوں کو
بے باک جو مے کش تھا ساقی اس بزم سے وہ محجوب گیا

بے راحلہ و بے زاد سفر رحمت پہ بھروسا فرما کر
جو ملک عدم میں بسنے کو اس طرح گیا وہ خوب گیا

بد حال بہت تھا اس پر بھی اے یار کسی نے لی نہ خبر
بڑ مار کے تیرے کوچے سے آخر کو ترا مجذوب گیا

رضواں نے کیا در خلد کا وا حوریں ہوئیں صدقے آ آ کر
غلماں نے قدم چومے اس کے جو تیری طرف منسوب گیا

طاقت جو نہیں اب حیرت سے تصویر کا عالم رہتا ہے
وہ آخر شب کی آہ گئی وہ لغرۂ محبوب گیا

یاں اپنی سزا بھگتی اس نے رحمت کی نظر ہوگی اس پر
ہر چند خطا کار الفت کوچے سے ترے معتوب گیا

حیرت ہے عبث اے جو ان بیش بہا منصوبوں پر
اس طرح کے موتی تب نکلے جب زیر زمیں میں ڈوب گیا

کیا اس کا سبب میں عرض کروں کچھ واقعے ایسے پیش آئے
میں روتا ہوا آیا تھا یہاں چپ یاں سے گیا مرعوب گیا

کوچے میں ترے اب شادؔ نہیں لے پاک خدا نے کی یہ زمیں
صد شکر سرائے فانی سے آخر وہ سگ معیوب گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse