دل اس لئے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل اس لئے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست
by حفیظ جونپوری

دل اس لئے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست
جب یہ نہ ہو بغل میں ہے دشمن بجائے دوست

مٹنے کی آرزو ہے اسی رہ گزار میں
اتنے مٹے کہ لوگ کہیں خاک پائے دوست

تقریر کا ہے خاص ادائے بیاں میں لطف
سنئے مری زبان سے کچھ ماجرائے دوست

سب کچھ ہے اور کچھ نہیں عالم کی کائنات
دنیا برائے دوست ہے عقبیٰ برائے دوست

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse