دل آیا اس طرح آخر فریب ساز و ساماں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل آیا اس طرح آخر فریب ساز و ساماں میں
by عزیز لکھنوی

دل آیا اس طرح آخر فریب ساز و ساماں میں
الجھ کر جیسے رہ جائے کوئی خواب پریشاں میں

یہ مانا ذرے ذرے پر تمہاری مہر ازل سے ہے
مگر کیا میری گنجائش نہیں شہر خموشاں میں

پتہ اس کی نگاہ وحشت افزا کا لگانا ہے
نگاہیں وحشیوں کی دیکھتا پھرتا ہوں زنداں میں

یہی ہے روح کا جوہر تم آؤ گے تو نکلے گا
دم آخر رکا ہے ایک آنسو چشم گریاں میں

مری جمعیت خاطر کا ساماں حشر کیا کرتا
قیامت ہو گئی ترتیب اجزائے پریشاں میں

فروغ لالہ و گل کا تماشا دیکھنے والے
یہ میرے دل کی چوٹیں ہیں جو ابھری ہیں گلستاں میں

عزیزؔ آرائش گلشن کی کوئی انتہا بھی ہے
وہ محو سیر گل ہیں یا گلستاں ہے گلستاں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse