دل آئنہ ہے جوہر عکس رو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل آئنہ ہے جوہر عکس رو ہے
by میر کلو عرش

دل آئنہ ہے جوہر عکس رو ہے
یوں ہی تجھ سے میں ہوں یوں ہی مجھ میں تو ہے

اگر گل ہے تو جان بلبل بھی تو ہے
تو ہر رنگ میں رنگ تو ہر بو میں بو ہے

مری خاک اشک ندامت سے تر ہے
تیمم بھی کریے تو حکم وضو ہے

بجا لن ترانی ہے خاموش ہیں ہم
جو اٹھ جائے پردہ تو پھر گفتگو ہے

تری زلف پر خم کا دیوانہ ہوں میں
نہ زنجیر پا ہے نہ طوق گلو ہے

تصور میں ابرو کے جو مر گیا ہوں
پس مرگ کعبہ مرے روبرو ہے

گریبان صد چاک ہے دامن گل
نہ پیوند کی جا نہ کار رفو ہے

ترے منہ کو دیکھوں ترے ساتھ سوؤں
یہ ہی حسرت دل یہ ہی آرزو ہے

میں دوران سر سے جو سر پھوڑتا ہوں
نہ مے ہے نہ ساقی نہ جام سبو ہے

چھری کیا ہے تلوار بھی مار قاتل
قبائے بدن کو بھی شوق رفو ہے

نہاتا ہے غیروں کے ہم راہ قاتل
مرے آب شمشیر ہی تا گلو ہے

ترے جلوہ سے ہے دل عرشؔ روشن
جو وہ صبح صادق تو خورشید تو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse