دلی کی سیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دلی کی سیر
by رشید جہاں

’’اچھی بہن ہمیں بھی تو آنے دو‘‘ یہ آواز دالان میں سے آئی، اور ساتھ ہی ایک لڑکی کرتے کے دامن سے ہاتھ پونچھتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔

ملکہ بیگم ہی پہلی تھیں جو اپنی سب ملنے والیوں میں پہلے پہل ریل میں بیٹھی تھیں۔ اور وہ بھی فرید آباد سے چل کر دہلی ایک روز کے لیے آئی تھیں محلہ والیاں تک ان کی داستان سفر سننے کے لیے موجود تھیں۔

’’اے ہے آنا ہے تو آؤ! میرا منہ تو بالکل تھک گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو سینکڑوں ہی بار تو سنا چکی ہوں۔ یہاں سے ریل میں بیٹھ کر دلی پہنچی اور وہاں ان کے ملنے والے کوئی نگوڑے اسٹیشن ماسٹر مل گئے۔ مجھے اسباب کے پاس چھوڑ یہ رفو چکر ہوئے اور میں اسباب پر چڑھی برقعہ میں لپٹی بیٹھی رہی۔ ایک تو کمبخت برقعہ، دوسرے مردوے۔ مرد تو ویسے ہی خراب ہوتے ہیں، اور اگر کسی عورت کو اس طرح بیٹھے دیکھ لیں تو اور چکر پر چکر لگاتے ہیں۔ پان کھانے تک نوبت نہ آئی۔ کوئی کمبخت کھانسے، کوئی آوازے کسے، اور میرا ڈر کے مارے دم نکلا جائے، اور بھوک وہ غضب کی لگی ہوئی کہ خدا کی پناہ! دلی کا سٹیشن کیا ہے بوا قلعہ بھی اتنی بڑا نہ ہوگا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی اسٹیشن ہی اسٹیشن نظر آتا تھا اور ریل کی پٹریاں، انجن اور مال گاڑیاں۔ سب سے زیادہ مجھے ان کالے کالے مردوں سے ڈر لگا جو انجن میں رہتے ہیں۔

’’انجن میں کون رہتے ہیں؟‘‘ کسی نے بات کاٹ کر پوچھا۔

’’کون رہتے ہیں؟ نہ معلوم بوا کون! نیلے نیلے کپڑے پہنے، کوئی داڑھی والا، کوئی صفا چٹ۔ ایک ہاتھ سے پکڑ کر چلتے انجن میں لٹک جاتے ہیں دیکھنے والوں کا دل سن سن کرنے لگتا ہے۔ صاحب اور میم صاحب تو بوا دلی اسٹیشن پر اتنے ہوتے ہیں کہ گنے نہیں جاتے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گٹ پٹ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہندستانی بھائی بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تکتے رہتے ہیں۔ کمبختوں کی آنکھیں نہیں پھوٹ جاتیں۔ ایک میرے سے کہنے لگا ’’ذرا منہ بھی دکھا دو۔‘‘

میں نے فوراً۔۔۔

’’تو تم نے کیا نہیں دکھایا؟‘‘ کسی نے چھیڑا۔

’’اللہ اللہ کرو بوا۔ میں ان موؤں کو منہ دکھانے گئی تھی۔ دل بلیوں اچھلنے لگا‘‘ تیور بلدل کر ’’سننا ہے تو بیچ میں نہ ٹوکو۔‘‘

ایک دم خاموشی چھاگئی۔ ایسی مزیدار باتیں فریدآباد میں کم ہوتی تھیں اور ملکہ کی باتیں سننے تو عورتیں دور دور سے آتی تھیں۔

’’ہاں بوا سودے والے ایسے نہیں جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ صاف صاف خاکی کپڑے اور کوئی سفید، لیکن دھوتیاں کسی کسی کی میلی تھیں ٹوکرے لیے پھرتے ہیں، پان، بیڑی، سگریٹ، دہی بڑے، کھلونا ہے کھلونا، اور مٹھائیاں چلتی ہوئی گاڑیوں میں بند کیے بھاگے پھرتے ہیں۔ ایک گاڑی آ کر رکی۔ وہ شورغل ہوا کہ کانوں کے پردے پھٹے جاتے، ادھر قلیوں کی چیخ پکار ادھر سودے والے کان کھائے جاتے تھے، مسافر ہیں کہ ایک دوسرے پرپلے پڑتے ہیں اور میں بچاری بیچ مٰں اسباب پر چڑھی ہوئی۔ ہزاروں ہی تو ٹھوکریں دھکے کھائے ہوں گے۔ بھئی جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو، گھبرا گھبرا کر پڑھی رہی تھی۔ خدا خدا کر کے ریل چلی تو مسافر اور قلیوں میں لڑائی شروع ہوئی،

’’ایک روپیہ لوں گا۔‘‘

’’نہیں، دو آنہ ملیں گے۔‘‘

ایک گھنٹہ جھگڑا ہوا جب کہیں اسٹیشن خالی ہوا۔ اسٹیشن کے شہدے تو جمع ہی رہے۔ کوئی دو گھنٹہ کے بعد یہ مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے دکھائی دیئے اور کس لا پرواہی سے کہتے ہیں، ’’بھوک لگی ہو تو کچھ پوریاں ووریاں لادوں، کھاؤگی؟ میں تو ادھر ہوٹل میں کھا آیا۔‘‘

میں نے کہا کہ، ’’خدا کے لیے مجھے میرے گھر پہنچادو، میں باز آئی اس موئی دلی کی سیر سے۔ تمہارے ساتھ تو کوئی جنت میں بھی نہ جائے، اچھی سیر کرانے لائے تھے۔‘‘ فرید آباد کی گاڑی تیار تھی اس میں مجھے بٹھا اور منہ پھلا لیا کہ، ’’تمہاری مرضی، سیر نہیں کرتیں تو نہ کرو!‘‘

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse