دلبری ہر بوالہوس کی حد سیں افزوں مت کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دلبری ہر بوالہوس کی حد سیں افزوں مت کرو
by سراج اورنگ آبادی

دلبری ہر بوالہوس کی حد سیں افزوں مت کرو
مفلس بے قدر کوں یک پل میں قاروں مت کرو

مت چڑھاؤ آستیں تم قتل کرنے پر مرے
اپنے دامن کوں عبث آلودۂ خوں مت کرو

مہربانی کی طرح پہلی نہ بھولو یک بیک
بیت ابرو کوں تم اپنی تازہ مضموں مت کرو

لذت مستی اگر دل کوں تمہارے ہے عزیز
جب تلک دیوانہ ہوئے تب لگ فلاطوں مت کرو

اپنے عاشق کوں دکھاؤ جلوۂ ایماں فریب
عقل کی رکھتا ہے بو زاہد کوں مجنوں مت کرو

کر دیے ہیں عاشقوں نے خون اپنے کوں سبیل
پنجۂ نازک کوں مہندی لالہ گلگوں مت کرو

چھوڑ دیو تا آتش حسرت میں جل کر خاک ہوئے
لاشۂ عاشق کوں مرنے بعد مدفوں مت کرو

عاشقوں کوں اس دوبالا کیف کی برداشت نئیں
خط کی سبزی لب کی شکر ساتھ معجوں مت کرو

خود بخود بے خود ہوا ہے دیکھ کر تم کوں سراجؔ
اس قدر ناز و ادا کا سحر و جادو مت کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse