دلا معشوق جو ہوتا ہے وہ سفاک ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دلا معشوق جو ہوتا ہے وہ سفاک ہوتا ہے
by رشید لکھنوی

دلا معشوق جو ہوتا ہے وہ سفاک ہوتا ہے
بڑا بے رحم ہوتا ہے بڑا بے باک ہوتا ہے

خوشی ہوگی ہلاک اپنا دل صد چاک ہوتا ہے
کہاں اب آرزو گھر حسرتوں کا خاک ہوتا ہے

تمہاری تیغ مجھ سے چپکے چپکے کہتی جاتی ہے
مبارک ہو کہ یہ سر زینت فتراک ہوتا ہے

تجھے اللہ نے بخشا ہے کیسا رتبۂ عالی
کہ تیرا نقش پا تاج سر افلاک ہوتا ہے

قریب آیا ہے وقت اے جان جاں اب دم نکلنے کا
ترے کوچے سے ہم اٹھتے ہیں جھگڑا پاک ہوتا ہے

جو پیتے ہیں شراب ان کی محبت میں نہیں عاصی
یہ تر دامن وہی ہیں جن کا دامن پاک ہوتا ہے

خیال آتا ہے بدنامی کا عاشق قتل ہوتے ہیں
کہ معشوقوں کو نام عاشقی سے پاک ہوتا ہے

اثر سے میری وحشت کے کوئی جامہ نہیں ثابت
میں سنتا ہوں گریباں ہر کفن کا چاک ہوتا ہے

میں کہہ دیتا ہوں ہو آ کر زلف کے کوچے میں دم بھر کو
کسی دن جب بہت مضطر دل غم ناک ہوتا ہے

پہنچ جائے حقیقت تک تری یہ غیر ممکن ہے
بہت گو تجھ سے واقف صاحب ادراک ہوتا ہے

رشیدؔ زار کیوں خوش خوش نہ جائے قبر کی جانب
میسر آج دیدار شہ لولاک ہوتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse