دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
by مومن خان مومن

دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
فلس ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

تاب نظارہ نہیں آئنہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے

کر کے زخمی تجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے

ہم نکالیں گے سن اے موج ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے

صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
چارہ فرما بھی کبھی قیدئ زنداں ہوں گے

منت حضرت عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے

تیرے دل تفتہ کی تربت پہ عدو جھوٹا ہے
گل نہ ہوں گے شرر آتش سوزاں ہوں گے

غور سے دیکھتے ہیں طوف کو آہوئے حرم
کیا کہیں اس کے سگ کوچہ کے قرباں ہوں گے

داغ دل نکلیں گے تربت سے مری جوں لالہ
یہ وہ اخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہوں گے

چاک پردے سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے

سنگ اور ہاتھ وہی وہ ہی سر و داغ جنون
وہ ہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیاباں ہوں گے

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse