دعوت نظر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دعوت نظر  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

میں ہی میں ہوں کوئی ہشیار کہے جاتا ہے
وہ ہی وہ ہیں کوئی سرشار کہے جاتا ہے
ہمہ اوست اس کی خودی کے لئے مرکز اے دوست
اس کا نادان انا بھی ہے متاع ہمہ اوست
ہوش افزا ہے مجھے غلغلۂ ہشیاری
کاش سمجھے اسے تو بھی جرس بیداری
انحصار من و تو ٹھیک نہیں سب سمجھیں
وقت ہے خود کو سمجھنے کا یہی اب سمجھیں
خود شناسی سے ہے امید کہ بن جائے گا کام
ورنہ اس حال زبوں کا ہے تباہی انجام
نہ بصارت نہ بصیرت نہ عزیمت ہم میں
کام کرنے کی نہیں نام کو ہمت ہم میں
اک خودی تھی سو کیا اس کو بھی غفلت کے سپرد
زندگی کی ہوئی یہ لہر بھی یوں دریا برد
اس طرف دیکھ فریسان اروپا کی نمود
آج بالفعل جو ثابت ہے وہ ان کا ہے وجود
راز تقدیر کھلا ان کے عمل سے ان پر
اپنے در پے ہے فقط بے عملی کا چکر
حسن کاری کا مذاق ان سے ہوا آئینہ
نئی دنیا کا یہ منظر ہے نیا آئینہ
ایسی وحدت پہ نہ ہو کس لئے کثرت شیدا
ایک منزل سے ہیں ہفتا و منازل پیدا
ان کی دنیا ہے نئی اپنی پرانی دنیا
بن گئی اپنے لئے رام کہانی دنیا
اور باتوں میں تو کیا خاک ملے گی جدت
جب زباں میں بھی گوارا نہیں کوئی جدت
چشم براہ نظر آتے ہیں وہ نقد نگار
جن کی فطرت کو اپج سے نہیں بالکل سروکار
نئی ترکیب اگر ان کو کہیں مل جائے
برہم اتنے ہوں کہ پامال زمیں ہل جائے
پھر یہ ہیں اور ادب سوز مداراتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse