دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک
by داغ دہلوی

دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک
کہوں میں دم بہ دم آمیں کہاں تک

ترے بیمار کو آتی نہیں موت
پڑھے جائے کوئی یٰسیں کہاں تک

تڑپنے دو ابھی میں بھی تو دیکھوں
وہ دیتے ہیں مجھے تسکیں کہاں تک

خدا اس بت کی باتوں کا ہے مشتاق
گیا شور لب شیریں کہاں تک

مرا منہ تھک گیا شکر جفا سے
کروں میں آفریں تحسیں کہاں تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse