دعائیں مانگیں ہیں مدتوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دعائیں مانگیں ہیں مدتوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر
by گویا فقیر محمد

دعائیں مانگیں ہیں مدتوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر
ہوا ہوں تب میں بتوں کا بندہ خدا خدا کر خدا خدا کر

دعا لب جام نے بھی مانگی سبو نے بھی ہاتھ اٹھا اٹھا کر
ہماری محفل میں آیا ساقی خدا خدا کر خدا خدا کر

دکھایا وحدت نے اپنا جلوہ دوئی کا پردہ اٹھا اٹھا کر
کروں میں سجدہ بتوں کے آگے تو اے برہمن خدا خدا کر

ہیں اشک زخموں سے میرے جاری نہ دیکھی ہوگی یہ اشک باری
بنی ہیں چشم پر آب قاتل یہ زخم پانی چرا چرا کر

کہاں وہ شکلیں کہاں وہ باتیں کہاں وہ جلسے کہاں وہ محفل
یہ سب کا سب خواب کا تھا ساماں چھپا لیا بس دکھا دکھا کر

برنگ ساغر ملا دیا منہ جو منہ سے تیرے خفا نہ ہونا
کیا ہے بے ہوش تو نے ساقی شراب مجھ کو پلا پلا کر

اٹھایا یاروں نے پر نہ اٹھا زمیں سے ہرگز ہمارا لاشہ
یہ کس نے ہم کو ہے مار ڈالا نظر سے اپنی گرا گرا کر

جو پہنچیں ہم مرغ نامہ بر کو تو چٹکیوں میں اسے اڑا دے
اگر چہ وہ طفل کھیلتا ہے پر کبوتر اڑا اڑا کر

پس از فنا بھی اگر تو آئے کروں سگ یار میہمانی
کہ استخوانوں کو اپنے تن میں رکھا ہما سے چھپا چھپا کر

گرے اگر سرکشی ہو مجھ سے ابھی فلک کو زمیں پہ پٹکوں
کہ توڑ ڈالے میں ایسے مینے ہزاروں شیشے اٹھا اٹھا کر

کبھی مرے دل سے کرتی ہیں بل کہی ہیں شانے سے یہ الجھتیں
غرض کہ زلفوں کو تو نے ظالم بگاڑا ہے سر چڑھا چڑھا کر

شکست لکھتا تھا نام دل کا یہی تھی طفلی میں مشق تیری
بنا دیا دل شکن یہ تجھ کو معلموں نے لکھا لکھا کر

بڑے گلے ہیں اجل کو تجھ سے مسیح کو بھی بہت ہیں شکوے
کہ دم میں تو نے ہیں مار ڈالے ہزاروں مردے جلا جلا کر

پلانا پانی کا جام زاہد گناہ مشرب میں ہے ہمارے
ثواب لیتا نہیں ہے کیوں تو شراب مجھ کو پلا پلا کر

نہیں کوئی رازدار ہم سا کیا نہ وحشت میں تجھ کو رسوا
کہ داغ مانند خار ماہی بدن میں رکھے چھپا چھپا کر

گلے ہزاروں نے اپنے کاٹے ہزاروں بے وجہ ہو گئے خون
بہت ہوا پھر تو یار نادم کف حنائی دکھا دکھا کر

نگہ کی صورت پھرو نہ ہر سو حجاب تم مردمک سے سیکھو
اب آؤ آنکھوں میں سیر دیکھو مژہ کی چلمن اٹھا اٹھا کر

دکھا کے گل سے عذار تو نے کیا دل عاشقاں کو بلبل
بنا دیے گوش غیرت گل صدائے رنگیں سنا سنا کر

گناہ کرتا ہے برملا تو کسی سے کرتا نہیں حیا تو
خدا کو کیا منہ دکھائے گا تو ذرا تو اے بے حیا حیا کر

چلا ہے محفل سے اپنے ساقی دکھاؤں میں اپنی اشک باری
کروں بط مے کو مرغ آبی ابھی سے دریا بہا بہا کر

رلائے برسوں ہنسی تو جس سے دکھائے گر زلف مار رکھے
کرے تو در پردہ راہ دل میں جو دیکھے پردہ اٹھا اٹھا کر

وہی اثر ہے جنوں کا اب تک وہی ہے لڑکوں کو اب بھی کاوش
کہ میری مٹی کے روز مجنوں بگاڑتے ہیں بنا بنا کر

عجب نہیں نامۂ عمل کا دلا ہو کاغذ اگر خطا کے
خطائیں کیں میں نے آشکارا کیے ہیں عصیاں چھپا چھپا کر

اثر ہے چاہ ذقن کی الفت کا بعد مردن بھی آہ باقی
کہ کھیلتی ہیں ہماری مٹی کے ڈول لڑکے بنا بنا کر

کیا ہے پوشیدہ عشق ہم نے کسی سے در پردہ ہے محبت
پڑے ہوئے بستر الم پر جو روتے ہیں منہ چھپا چھپا کر

جو خوف طوفان اشک سے اب نہیں ہے جاتا نہ جائے قاصد
رواں کروں سوئے یار جانی خطوں کی ناویں بنا بنا کر

ترا سا قد بن سکا نہ ہرگز تری سی صورت نہ بن سکی پھر
اگر چہ صانع نے لاکھوں نقشے بگاڑ ڈالے بنا بنا کر

ادھر مژہ نے لگائی برچھی ادھر نگاہوں نے تیر مارے
شکست دی فوج صبر دل کو یہ کس نے آنکھیں لڑا لڑا کر

کٹی ہے گویا شب جوانی بس آن پہنچی ہے صبح پیری
بہت سی کی تو نے بت پرستی اب ایک دو دن خدا خدا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse