دشمن کی ملامت بلا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دشمن کی ملامت بلا ہے
by منیرؔ شکوہ آبادی

دشمن کی ملامت بلا ہے
یہ موم کا سانپ کاٹتا ہے

وسواس حساب حشر کیا ہے
گمناموں کو کون پوچھتا ہے

عالم مشتاق دید کا ہے
وہ بت نہ دکھائے منہ خدا ہے

وہ سیم بدن مگر خفا ہے
سونا جو حرام ہو گیا ہے

سر تا پا ہوں برنگ تصویر
کیا ضعف کا رنگ جم گیا ہے

قشقہ کھنچا ہے ابروؤں میں
دو نیمچے ایک پر تلا ہے

محفوظ افتادگی نے رکھا
تعویذ میں نقش بوریا ہے

گردش سے ملی مجھے سعادت
ہر آبلہ بیضۂ ہما ہے

جھڑتے ہیں پھول منہ سے اے گل
باتوں کا جھاڑ موتیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse