دشمن کی طرف ہو کے نکلنے نہیں دیتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دشمن کی طرف ہو کے نکلنے نہیں دیتے
by ریاض خیرآبادی

دشمن کی طرف ہو کے نکلنے نہیں دیتے
ہم کو وہ بری راہ بھی چلنے نہیں دیتے

آنکھیں ہمیں تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
ہم چٹکیوں سے دل کو مسلنے نہیں دیتے

کہتے ہیں مئے ناب حسینوں کا ہے جوبن
ہم بزم میں اپنی اسے ڈھلنے نہیں دیتے

وہ کیا لحد غیر کو پامال کریں گے
چلتے ہوئے فقرے بھی تو چلنے نہیں دیتے

جلتا ہوں بچاتے ہیں اسے سوز دروں سے
دشمن کو مری آگ میں جلنے نہیں دیتے

نازک ہے مرے نخل تمنا کی ہر اک شاخ
اس خوف سے وہ پھولنے پھلنے نہیں دیتے

کب بوسے لیے ان کے جو بل کھائے ہیں گیسو
تم گالوں کو کیوں زہر اگلنے نہیں دیتے

آئی ہے یہ کہتی ہوئی کس کی شب فرقت
ہم رنگ زمانے کو بدلنے نہیں دیتے

ڈر ہے نہ دوپٹہ کہیں سینے سے سرک جائے
پنکھا بھی ہمیں پاس سے جھلنے نہیں دیتے

کیوں ہم کو جلاتے ہو دم وصل یہ کیا ہے
کیوں پھونکتے ہو شمع کو جلنے نہیں دیتے

ہے جان مری کشمکش نزع میں دن رات
ارمان تو کیا دم بھی نکلنے نہیں دیتے

کھلنے نہیں دیتے کبھی کم ظرفی واعظ
ہم رند پلا کر بھی ابلنے نہیں دیتے

جاتا ہوں تو آتی ہے یہی طور سے آواز
ہم دیکھنے والوں کو سنبھلنے نہیں دیتے

کیا کام ریاضؔ آنے کو سو بار بہار آئے
ہم کو یہ حسیں پھولنے پھلنے نہیں دیتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse