دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے
Appearance
دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے
شوخ ہے بانک ہے نکت بھوں ہے
تجھ کوں لیلیٰ بھی دیکھ مجنوں ہے
دل رباؤں کا دل ربا توں ہے
دل کے چھلنے کوں یہ لٹک چلنا
سحر ہے ٹوٹکا ہے افسوں ہے
خال مشکیں ہے لال لب ہا پر
یا مے سرخ بیچ افیوں ہے
آن ہے درد کے ضعیفاں پر
آہ دل کی الف ہے قد نوں ہے
درگزر کر رقیب سیں اے دل
بے حیا ہے رجالا ہے دوں ہے
درد سر کا علاج کیوں نہ کرے
یار کا رنگ صندلی گوں ہے
شیخ خرقے میں جب مراقب ہو
گربہ مسکین ہے مری جوں ہے
گر وفادار کش نہیں وہ شوخ
آبروؔ ساتھ دشمنی کیوں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |