دشت پیمائی کا گر قصد مکرر ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دشت پیمائی کا گر قصد مکرر ہوگا
by بھارتیندو ہریش چندر

دشت پیمائی کا گر قصد مکرر ہوگا
ہر سر خار پئے آبلہ نشتر ہوگا

مے کدے سے ترا دیوانہ جو باہر ہوگا
ایک میں شیشہ اور اک ہاتھ میں ساغر ہوگا

حلقۂ چشم صنم لکھ کے یہ کہتا ہے قلم
بس کہ مرکز سے قدم اپنا نہ باہر ہوگا

دل نہ دینا کبھی ان سنگ دلوں کو یارو
چور ہووے گا جو شیشہ تہہ پتھر ہوگا

دیکھ لیتا وہ اگر رخ کی تجلی تیرے
آئنہ خانۂ مایوسی میں ششدر ہوگا

چاک کر ڈالوں گا دامان کفن وحشت سے
آستیں سے نہ مرا ہاتھ جو باہر ہوگا

اے رساؔ جیسا ہے برگشتہ زمانہ ہم سے
ایسا برگشتہ کسی کا نہ مقدر ہوگا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.