دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی
by اکبر الہ آبادی

دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی
اور ان سب پہ فزوں بادیہ پیمائی بھی

خواب راحت ہے کہاں نیند بھی آتی نہیں اب
بس اچٹ جانے کو آئی جو کبھی آئی بھی

یاد ہے مجھ کو وہ بے فکری و آغاز شباب
سخن آرائی بھی تھی انجمن آرائی بھی

نگہ شوق و تمنا کی وہ دل کش تھی کمند
جس سے ہو جاتے تھے رام آہوئے صحرائی بھی

ہم صنم خانہ جہاں کرتے تھے اپنا قائم
پھر کھڑے ہوتے تھے واں حور کے شیدائی بھی

اب نہ وہ عمر نہ وہ لوگ نہ وہ لیل و نہار
بجھ گئی طبع کبھی جوش پہ گر آئی بھی

اب تو شبہے بھی مجھے دیو نظر آتے ہیں
اس زمانہ میں پری زاد تھی رسوائی بھی

کام کی بات جو کہنی ہو وہ کہہ لو اکبرؔ
دم میں چھن جائے گی یہ طاقت گویائی بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse