دشت ایمن سے چلے کوئے بتاں تک پہنچے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دشت ایمن سے چلے کوئے بتاں تک پہنچے
by عابد علی عابد

دشت ایمن سے چلے کوئے بتاں تک پہنچے
تیرے دیوانے رموز دو جہاں تک پہنچے

بت کے راندے ہوئے اللہ کے ٹھکرائے ہوئے
آخر کار در پیر مغاں تک پہنچے

غم کو ہیں عار وہ آہیں کہ لبوں تک آئیں
دل پہ ہیں بار وہ شکوے کہ زباں تک پہنچے

مرحلے اور بھی ہیں جاں سے گزرنے کے سوا
عشق میں ہم نفسو کوئی کہاں تک پہنچے

ترے جلووں کی رسائی کا تماشا دیکھا
منزل دل سے چلے منزل جاں تک پہنچے

کاروان غم دل دشت جنوں سے گزرا
آج ہم غایت عمر گزراں تک پہنچے

عشق کا ساتھ دیا صدق و یقیں تک آئے
عقل سے کام لیا وہم و گماں تک پہنچے

اہل منصب نے کیا کور نگاہوں کو سلام
اہل دل بارگہہ دیدہ وراں تک پہنچے

جن کو رہنا تھا رہے ہم سخنوں کے ہم راہ
جن کو جانا تھا گئے بزم شہاں تک پہنچے

مل گئیں سب حرم و دیر کی راہیں آکر
شکر صد شکر کہ ہم شہر مغاں تک پہنچے

رہ گئے یار قتیل غم دوراں ہو کر
ہم سے کچھ سوختہ جاں کوئے بتاں تک پہنچے

پھر بہار آئی کہ ناگاہ اسیران غیور
ہم رہ شاخ قفس برق تپاں تک پہنچے

کچھ کرو چارہ گرو دل کی گراں جانی کا
شیشہ ٹوٹے تو کف شیشہ گراں تک پہنچے

تمہیں سچے کہ رہا رنگ تغافل یکساں
ہمیں جھوٹے کی خموشی سے فغاں تک پہنچے

اپنے احوال و مقامات سے میں واقف ہوں
وہ تو حالات ہیں جو اہل جہاں تک پہنچے

خوشنوائی کی ملی داد کہ میرے اشعار
مہ وشاں کج کلہاں خوش نگہاں تک پہنچے

میں نے رسماً جو کیا عشق بتاں سے انکار
کیا تبسم لب لعلین بتاں تک پہنچے

میری آنکھوں سے گریزاں ہیں وہ جلوے اب تک
عکس جن کے مرے آئینۂ جاں تک پہنچے

دامن یار کی منزل سے گزر کر آخر
دست عشاق سر تاجوراں تک پہنچے

چاند اترا مرے کاشانے میں عابدؔ کل رات
دیکھیے رات کی یہ بات کہاں تک پہنچے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse