دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
by مصطفٰی خان شیفتہ

دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
کن حسرتوں سے خون ہم اپنا پیا کیے

شکر ستم نے اور بھی مایوس کر دیا
اس بات کا وہ غیر سے شکوہ کیا کیے

کب دل کے چاک کرنے کی فرصت ہمیں ملی
ناصح ہمیشہ چاک گریباں سیا کیے

تشبیہ دیتے ہیں لب جاں بخش یار سے
ہم مرتے مرتے نام مسیحا لیا کیے

ذکر وصال غیر و شب ماہ و بادہ سے
ایسے لیے گئے ہمیں طعنے دیا کیے

تھی لحظہ لحظہ ہجر میں اک مرگ نو نصیب
ہر دم خیال لب سے ترے ہم جیا کیے

طرز سخن کہے وہ مسلم ہے شیفتہؔ
دعوے زبان سے نہ کیے میں نے یا کیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse