در پہ تیرے پکار کی فریاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در پہ تیرے پکار کی فریاد
by مرزا جواں بخت جہاں دار

در پہ تیرے پکار کی فریاد
سمع تو نے نہ یار کی فریاد

نہیں سنتا ہے لالہ رو میرا
اس دل داغ دار کی فریاد

آہ سنتا ہے کب وہ رشک بہار
ہم نے گو اب ہزار کی فریاد

دیکھ اس رشک گل کو جوں بلبل
میں نے بے اختیار کی فریاد

ہجر میں تیرے میری آنکھوں نے
رو رو جیوں آبشار کی فریاد

روز سنتے ہیں ہم خزاں میں آہ
بلبلوں سے بہار کی فریاد

شرر گرم عشق پر جل کے
دل نے اسپند وار کی فریاد

کون سنتا ہے کس سے جا کہیے
اس دل بے قرار کی فریاد

نالۂ زار کو مرے سن کر
نے نیں ہو دل فگار کی فریاد

راہ الفت میں میں نے ہو دل چاک
جیوں جرس بار بار کی فریاد

گل نے بلبل کی سن لی سن تو بھی
اپنے مہجور زار کی فریاد

اف نہ حلق بریدہ نے کی مرے
خنجر آب دار کی فریاد

ہو گیا خاک پر کسی سے نہ کی
میں نے اس شہسوار کی فریاد

کیا جہاں دارؔ عرض کرتا ہے
سنیو اس خاکسار کی فریاد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse