در پردہ ستم ہم پہ وہ کر جاتے ہیں کیسے
Appearance
در پردہ ستم ہم پہ وہ کر جاتے ہیں کیسے
گر کیجے گلہ صاف مکر جاتے ہیں کیسے
آنے میں تو سو طرح کی صحبت تھی شب وصل
دیکھیں گے پر اب اٹھ کے سحر جاتے ہیں کیسے
رنجش کا مری پاس نہیں آپ کو مطلق
برہم تجھے ہم دیکھ کے ڈر جاتے ہیں کیسے
غصہ میں نیا رنگ نکالے ہیں پری رو
جوں جوں یہ بگڑتے ہیں سنور جاتے ہیں کیسے
اس صاحب عصمت کو یہی سوچ ہے ہر صبح
بے وجہ مرے بال بکھر جاتے ہیں کیسے
ایام مصیبت کے تو کاٹے نہیں کٹتے
دن عیش کے گھڑیوں میں گزر جاتے ہیں کیسے
وو وقت تو آنے دے بتا دیں گے شہیدیؔ
بن آئے کسی شخص پہ مر جاتے ہیں کیسے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |