Jump to content

در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ (I)

From Wikisource
در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ
by میر تقی میر
314941در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓمیر تقی میر

اک شب کیا تھا یار تری زلف کا خیال
اب تک ہے دشمنی میں مری میرا بال بال
میں مر گیا فراق میں پر اب یہ کیا ہے ظلم
جیتی گڑی ہے ساتھ مرے حسرت وصال
جنبش ہوئی مژہ کو ادھر گر گئی سناں
ابرو ہلے ترے کہ ادھر کٹ گیا ہلال
آیا ہے یاد قیس بہت اب کہ ہوں بتنگ
اس کے بھلاوے مجھ کو نہیں چھوڑتے غزال
خوش وقت ٹک تو ہوں پہ کہیں کا نہیں ہوں پھر
آزردہ ہوئے مجھ سے اگر خاطر ملال
رنگ اڑ گیا تبھی کہ ہوا تجھ سے چہرہ گل
رکھے ہے اب نسیم کی سیلی سے منھ کو لال
دوزخ ہے میرے شرم گنہ کے عرق میں غرق
لیکن نہیں ہنوز مجھے ٹک بھی انفعال
خوش قامتی کو آہ کے کب پہنچتا ہے سرو
ہے یہ تو باغ رنگ شکستہ کا نونہال
حیرت بساہی جان کو اپنی تمام عمر
ٹک چشم آئینہ نے ترا دیکھ کر جمال
یک روز بے نقاب ہوا تھا تو صبح کو
اب تک ہے آفتاب جہاں تاب پر زوال
تھی سیر تیرے کوچے میں عشاق کی معاش
کتنے شکستہ دل تھے بہت تھے خراب حال
جتنے غرض تھے سب کو یقیں تھا کہ مرچکے
کوئی نہ تھا کہ جس کو ہو جینے کا احتمال
کب تک صفت بتوں کی خدا سے تو خوف کر
اے طبع رہ نہ اتنی بھی پابند خط و خال
پڑھ منقبت یہ شاہ کی جس سے نجات ہو
وہ شاہ جس کے ایک گدا کو ہے یہ کمال
بخشش سے جس کی حرف طلب محو ہوگیا
کم اس کے وقت میں ہے بہت نوبت سوال
ہے معن اس کے مطبخ عالی کا کاسہ لیس
دستارخواں کا اس کے ہے حاتم اک آشمال
آوے اگر عطا و کرم پر وہ ایک دم
خسرو کے ہفت گنج تو پھر کیا ہیں چیز مال
کہتا ہوں اب میں مطلع ثانی کہ ہوں بتنگ
وسعت رکھے ہے بس کہ یہ میدان قیل و قال

مطلع ثانی

اے نائب مصاحب دادار بے ہمال
وے مشورت شریک خداوند لایزال
تو ہے کہ تیرے عدل کی نظم و نسق کو سن
اٹھ جائے دفعتہ ہی مزاجوں سے اختلال
چاہے خدانخواستہ اس کا اگر تو رغم
تو منحرف مقام سے ہو خط اعتدال
شاہا ترا غلام ہو ایک اور اک طرف
سنگیں ہو فوج دشمن اگر کوہ کی مثال
تیر و کماں کو ہاتھ میں لے جب ہو سامنے
ہے اس کو اپنے زور شجاعت سے یہ کمال
جس دم کہ زور بازو سے آکر لگاوے تیر
پھوٹیں دوسار ہوویں اگر آہنیں جبال
چٹکی سے اس کی ہو کے جدا تیر پر لگائے
جو اس کے سامنے ہو اسے اڑ کے لاگے بھال
اٹکل سے جس کے سینے میں مارے ہو تیرتخش
منھ دیکھو مدعی جو رکھے اپنے تیں سنبھال
پشت عدو کی اور ہو پیکان یوں نمود
جیسے کہ سانپ بیٹھے ہے بانبی سے سر نکال
بالفرض اس پہ چوٹ کرے آکے مدعی
خالی دے اس کے وار کو دیوے زمیں پہ ڈال
اس جھوک ہی میں ہاتھ مع تیغ ٹوٹ جائے
گردن کٹادے مفت گرے بس کہ ہو نڈھال
سنتے تھے وہ مثل سو یہیں ہوتی ہے درست
دست شکستہ اپنی ہی گردن کا ہے وبال
جو کوہ آہنیں ہوں ترے مدعی شہا
تنہا ترا غلام لے تلوار اور ڈھال
دو ہاتھ ایسے گڑ کے کرے سب کو دے اکھاڑ
مارے زمیں پہ جس کو پکڑ کر کمر دوال
ٹھہرے ورے پرے تو نہایت غریب ہے
تحت الثریٰ سے گر نہ پرے جائے بدسگال
یوں دیکھ ایک دو کو کنارہ کرے شتاب
میدان کارزار سے رستم بہ رنگ زال
شیر فلک کو راہ بھلا دیوے وہ دھمک
اس زلزلے میں گاو زمیں سیکھ جائے چال
من بعد اور باقی رہیں جتنے کشتنی
کر جمع ان کو زور شجاعت سے پیل پال
تلوار لے پھرے وہ تو پھر جائے روزگار
نعرہ کرے تو تن سے کرے روح انتقال
اہل سلاح ترس سے گر گر پڑیں بہت
جتنوں کے ہو گلے میں زرہ ان کا ہو یہ حال
نعرے سے اس کے لیویں بہت یوں رہ گریز
بھاگے ہیں جیسے شیر کی آوازسے شغال
حصہ رسد کوئی ہو وہ رکھ جائے ایک تیغ
گذرے نہ ایک دم بھی کہ قضیہ ہے انفصال
زخم اس کے ہاتھ کا جو لگے بہ نہ ہو کبھی
مٹ جائے کائنات مگر تب ہو اندمال
تر ہوگئی ہے بس کہ لہو میں گل زمیں
گر خشک ہووے خاک کہیں بعد ماہ و سال
ہو پھر گذار باد صبا سے یہ واں کا رنگ
اڑتا ہے جیسے ہولی کے ایام میں گلال
میلان طبع مطلع ثالث کی اور ہے
تا خیر پر قصیدۂ غرا کا ہو مآل

مطلع ثالث

لائق تری صفت کے صفت میری ہے محال
آشفتہ طبع شاعر خستہ کی کیا مجال
تو وہ در مدینۂ علم علیم ہے
جس شخص کو نہ آوے الف بے تے دال ذال
آوے تری جناب مقدس میں ایک دم
کرتے ہیں واں تو وقف سبھی طرز کے مقال
عالم ہو اس قدر کہ بیاں کیا کرے کوئی
پھر بحث اس سے عقل فلاطون پر ہے دال
لیتے ہیں تیرے در سے گدا پوست تخت فقر
پاتے ہیں تیرے در سے شہا مکنت و جلال
جب تک جیوں میں دل میں مرے آرزو ہے یہ
ہوں سر سے تیرے زائر درگہ کا پائمال
پھر بعد مرگ حوض پہ کوثر کے یا علیؓ
جاگہ مری ہو حشر کی تیری صف نعال
جب ہوں میں گرم راہ ترے سائے میں شہا
ہوجائے سرد آتش دوزخ کی اشتعال
جب تک جیے گا محو ثنا ہی رہے گا میرؔ
ہے تیری منقبت سے نپٹ اس کو اشتغال
ہوئے حرام تیرے محبوں کو درد و غم
شمشیر دوستاں پہ ہو خون عدو حلال


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.