در صفت انبہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در صفت انبہ
by مرزا غالب

ہاں، دلِ درد مندِ زمزمہ ساز
کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز

خامے کا صفحے پر رواں ہونا
شاخِ گل کا ہے گلفشاں ہونا

مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے؟
نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے!

بارے، آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
خامہ نخلِ رطب فشاں ہو جائے

آم کا کون مردِ میدان ہے
ثمر و شاخ گوئے و چوگاں ہے

تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں
آئے، یہ گوئے اور یہ میداں

آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک

نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادۂ ناب بن گیا انگور

یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے

مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے!
آم کے آگے نیشکر کیا ہے!

نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ، نہ بار
جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار

اور دوڑائیے قیاس کہاں
جانِ شیریں میں یہ مٹھاس کہاں

جان میں ہوتی گر یہ شیرینی
کوہکن باوجودِ غمگینی

جان دینے میں اس کو یکتا جان
پَر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان

نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دوا خانۂ ازل میں، مگر

آتشِ گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام

یا یہ ہو گا، کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغِ جنت سے

انگبیں کے، بہ حکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس

یا لگا کر خضر نے شاخِ نبات
مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات

تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل

تھا ترنجِ زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد پر کہاں بو باس

آم کو دیکھتا اگر اک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار

رونقِ کارگاہِ برگ و نوا
نازشِ دودمانِ آب و ہوا

رہروِ راہِ خلد کا توشہ
طوبیٰ و سِدرہ کا جگر گوشہ

صاحبِ شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پروردۂ بہار ہے آم

خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو
نو برِ نخلِ باغِ سلطاں ہو

وہ کہ ہے والیِ ولایتِ عہد
عدل سے اس کے ہے حمایتِ عہد

فخرِ دیں عزِ شان و جاہِ جلال
زینتِ طینت و جمالِ کمال

کار فرمائے دین و دولت و بخت
چہرہ آرائے تاج و مسند و تخت

سایہ اُس کا ہما کا سایہ ہے
خلق پر وہ خدا کا سایہ ہے

اے مفیضِ وجودِ سایہ و نور!
جب تلک ہے نمودِ سایہ و نور

اِس خداوندِ بندہ پرور کو
وارثِ گنج و تخت و افسر کو

شاد و دلشاد و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو!

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse