در رہا سب پہ جو سخنور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در رہا سب پہ جو سخنور ہے
by دیا شنکر نسیم

در رہا سب پہ جو سخنور ہے
شعر تیغ زباں کا جوہر ہے

بات اپنی یہ سن کے کان میں ڈال
آبرو مثل آب گوہر ہے

عشق بن کیا کسی کا دل ہو گزار
موم بے آگ دیکھے پتھر ہے

دل کا دینا سراسری مت جان
جان پر کھیلنا سراسر ہے

کیا مخالف ہے اس چمن کی ہوا
خار دیتا ہے جو گل تر ہے

نوک رکھ لو برہنہ پائی کی
آباد خار دشت نشتر ہے

اب تو جاتے ہیں اس گل میں نسیمؔ
ہو رہے گا جو کچھ مقدر ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse