در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
by مرزا غالب

در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بت آئنہ سیما نہ ہوا

کم نہیں نازش ہم نامی چشم خوباں
تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا

سینہ کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا

ہر بن مو سے دم ذکر نہ ٹپکے خوں ناب
حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا

قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse