در بیان کذب
اے جھوٹھ آج شہر میں تیرا ہی دور ہے
شیوہ یہی سبھوں کا یہی سب کا طور ہے
اے جھوٹھ تو شعار ہوا ساری خلق کا
کیا شہ کا کیا وزیر کا کیا اہل دلق کا
اے جھوٹھ تجھ سے ایک خرابی میں شہر ہے
اے جھوٹھ تو غضب ہے قیامت ہے قہر ہے
اے جھوٹھ رفتہ رفتہ ترا ہوگیا رواج
تیری متاع باب ہے ہر چار سو میں آج
اے جھوٹھ کیا کہوں کہ بلازیر سر ہے تو
اے جھوٹھ سچ یہ ہے کہ عجب فتنہ گر ہے تو
اے جھوٹھ کب ہے عرصہ میں تجھ سا حریف اب
تیرے ہی حکم کش ہیں وضیع و شریف اب
اے جھوٹھ تیرے شہر میں ہیں تابعیں سبھی
مر جائے کیوں نہ کوئی وے سچ بولیں نے کبھی
کہنے سے آج ان کے کوئی دل نہ شاد ہو
فردا کہیں تو اس سے قیامت مراد ہو
وعدے گھڑی کے پہروں کے سب آزماچکے
برسوں تک انتظار کیا جی ہی جاچکے
اے جھوٹھ رنگ تیرے کرے کوئی کیا بیاں
رکھتا ہے جیسے غنچہ زباں تو تہ زباں
یوسف کہ تھا نبی و صداقت شعار تھا
پھر حسن ظاہری سے بھی باغ و بہار تھا
پایان کار تیرے سبب چاک پیرہن
زنداں میں جا کے برسوں رہا چھوڑ کر وطن
اے جھوٹھ تو تو ایک دل آویز ہے بلا
آشوب گاہ تجھ سے زمانہ رہا سدا
کس جاں کنی سے کوہ کنی کوہ کن نے کی
تصویر کھود شیریں کی پیش نظر رکھی
نزدیک جب ہوا کہ وہ مطلوب سے ملے
اب صبح و شام غنچۂ مقصود دل کھلے
دلالہ کے تو پردے میں آ کام کر گیا
دو باتوں میں وہ عاشق دل خستہ مر گیا
اے جھوٹھ تجھ سے فتنے ہزاروں اٹھا کیے
ہنگامہ و فساد ہی ہر سو رہا کیے
اے جھوٹھ راستی سے نہیں گفتگو کہیں
کہنے کو ہاں کہیں ہیں حقیقت میں ہے نہیں
اے جھوٹھ اس طرح ہیں بہت جی سے جاچکے
وعدوں میں آہ لوگوں کے وعدے ہی آچکے
اے جھوٹھ اس زمانے میں کیونکر چلے معاش
ہے تنگ جھوٹھ بولنے سے عرصۂ تلاش
سردار جس سے سب متعلق ہے کاروبار
سچ بولنا ہے اس کے تئیں سخت ننگ و عار
پھر سب مدار کار دروغی و مفتری
صدق و صفا و راستی کے عیب سے بری
جھوٹا سوار دولت ابھی کا ہے یہ امیر
ورنہ قسم کسو کی بھی تھی حرف بارگیر
مشکل حصول کام ہے یاں حاصل کلام
باتوں ہی باتوں کام ہوا خلق کا تمام
اے جھوٹھ دل مرا بھی بہت دردناک ہے
ان کاذبوں سے صبح نمط جیب چاک ہے
اک فرد دستخطی تھی مری ایک شخص پاس
دیکھا جو خوب اس کو تو مطلق نہیں حواس
تھا میں فقیر پر نہ گیا شاہ کے حضور
اتنے لیے کہ رتبۂ عزت مرا ہے دور
آداب سلطنت سے نہیں مجھ کو رابطہ
حرکت نہ ہوئے مجھ سے کوئی غیر ضابطہ
مرزائی مجھ سے کھنچتی نہیں ہر عزیز کی
پھر شعر و شاعری بھی نہیں ہے تمیز کی
صحبت خدا ہی جانے پڑے کیسی اتفاق
کیا بات آوے بیچ میں بے رتبگی ہے شاق
میں مضطرب گھر اس کے گیا اٹھ کے پانچ بار
کہنے لگا زباں سے یہ ہوتے ہی وہ دوچار
تقصیر میری اس میں نہ کریے گا کچھ خیال
صاحب کہیں خموشی کروں میں یہ کیا مجال
لیکن یہ حرف اس بھی سیہ رو کا رکھیے یاد
انداز سے یہ لوگ سخن کرتے ہیں زیاد
بہتیری ایسی فردیں یہ رکھتے ہیں جیب میں
رکھتے ہیں یوں ہی لوگوں کو برسوں فریب میں
دکھلاؤں گا چلا ہوں سوال آپ کا لیے
میں نے کہا فقیر کہو کس طرح جیے
بولا نہ ہوگا سعی میں ایدھر سے کچھ قصور
پھر دیکھیے کہ پردے سے کرتا ہے کیا ظہور
اک آدھ ایسی بات بناکر کھسک گیا
دل اس خبر کے سننے سے میرا دھڑک گیا
یہ عرضیاں حضور کو بھیجیں میں صبح و شام
دستخط جو ہوکے آئے کوئی سو اسی کے نام
یعنی وہ اب کی آن کے کچھ دیوے گا شتاب
دل جمع رکھیں کاہے کو کرتے ہیں اضطراب
دو چار بار آیا بھی وہ پر نہ کچھ ہوا
مجھ کو جو اضطرار تھا میں بے اجل موا
مدت مدید گذری مجھے کرتے انتظار
خجلت ہوئی جو حال لکھا میں نے بار بار
اس فرد دستخطی کو ہے یہ ماہ ہفتمیں
تنخواہ کا نہیں ہے ٹھکانہ ابھی کہیں
آیا جو وہ لطیفۂ غیبی اب اپنے گھر
میں مضطرب ہو آپ گیا ملنے اس کے گھر
بارے نہ اتفاق ہوا یہ کہ ہو ملاپ
کھویا تھا اضطرار سے عز و وقار آپ
گھر آ کے ایک بھائی کو بھیجا پیام دے
آئے وے اس کے پاس سے جو کچھ جواب لے
حضرت سے کہیو پہلے بہت بندگی مری
پھر کہیو اب اترتی ہے شرمندگی مری
دو چار دن میں بھیجے گا کچھ گھر ہی آپ کے
درپے نہ اتنے ہوجیے میرے ملاپ کے
تب سے وے بھائی جاتے ہیں ہر روز صبح و شام
اب تک تو ملتوی ہے زمانے زدے کا کام
دن دیکھتے ہیں وعدے کے بھی ہیں بہت قریب
پھر ترک شہر کیجیے گا کہہ کے یانصیب
برسوں ہوئے مہینوں کے وعدے ہوئے وعید
سچ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ان جھوٹھوں سے بعید
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |