Jump to content

در بیان کدخدائی نواب آصف الدولہ بہادر

From Wikisource
در بیان کدخدائی نواب آصف الدولہ بہادر
by میر تقی میر
314927در بیان کدخدائی نواب آصف الدولہ بہادرمیر تقی میر

ہے جہان کہن تماشاگاہ
آصف الدولہ کا رچا ہے بیاہ
آؤ ساقی کہ کدخدائی ہے
طبع نواب ادھر کو آئی ہے
دل خوش احباب و شاد بہر دہر
بستہ آئیں دو راستہ ہے شہر
نئے سر سے جواں ہوا ہے جہاں
عیش و عشرت کے محو خرد و کلاں
ہر طرف شہر میں ہے آرائش
رہرواں کی نہیں ہے گنجائش
شیشہ باز فلک ہے آتش باز
کہکشاں سے ہوا ہوائی ساز
ماہ سے ماہتاب کی ہے طرح
کس سے ہو لطف روشنی کی شرح
نہیں رستوں میں روشنی کے دیے
نجم ہیں چشم روشنی کے لیے
کیا ستاروں کا چھوٹنا کہیے
آسماں کی طرف ہی تک رہیے
شب شادی کی دھوم کی کیا بات
روز روشن تھی روشنی سے رات
دو طرف چھوٹتے جو ہیں گے انار
راہ و رستے ہوئے ہیں باغ و بہار
آؤ ساقی کہ جمع ہیں احباب
سب مہیا ہیں عیش کے اسباب
لا وہ جوں آفتاب ساغر زر
آب گل رنگ سے لبالب کر
آج جھوما ہے ابر بخشش زور
کچھ نظر ہے تجھے ہوا کی اور
دست دستور ابر نیساں ہے
یعنی یک دست گوہرافشاں ہے
کر چمن زار دست و دل کی سیر
ہیں نہال آج آشنا و غیر
گل نمط دل شگفتہ سب کے کیے
خلعت فاخرہ سبھوں کو دیے
لا کہاں ہے وہ لالہ رنگ شراب
جس سے مست گذارہ ہوں احباب
آؤ مطرب لیے رباب و چنگ
کاڑھ منھ سے نواے سیرآہنگ
ہر طرف رقص میں ہیں گل رویاں
پاے کوباں ہیں سلسلہ مویاں
شادمانی سے ہو نواپرداز
دے بہار گذشتہ کو آواز
گل و لالہ سے چشم باز کرے
رنگ صحبت کو دیکھ ناز کرے
چھیڑ ساز طرب نوا کے تئیں
باندھ آواز سے ہوا کے تئیں
وجد میں لاؤ مے پرستوں کو
یاد دے ٹک سرود مستوں کو
آؤ ساقی کہ روشنی ہے خوب
محو آرائش آج ہیں محبوب
کاغذیں باغ کیا تماشا ہے
پھول کترا کہ گل تراشا ہے
بکّے سی مشعلوں کا ہوں بندہ
نور کا ماہ نے کیا چندہ
شیشہ شیشہ شراب ہے درکار
صحبت عیش کو چھکا یک بار
لالہ رنگ رخ نکویاں کو
مایۂ ناز خوب رویاں کو
اس پری کو نکال شیشے سے
رنگ مجلس میں ڈال شیشے سے
ہوئے سرمست ہو تماشائی
حکم کش ہے سپہر مینائی
چھوڑ آئین بردباری کا
سیر کرلے تزک سواری کا
چل گلابی کو ہاتھ میں لے لے
ایک دم جام متصل دے لے
ہے سواری کے فیل کی وہ دھوم
جیسے ابر بہار آوے جھوم
آئے دولت سرا سے ہو کے سوار
لعل ناب و گہر ہیں صرف نثار
اک مہابت کے ساتھ فیل نشاں
آگے مانند کوہ زر کے رواں
اور ہاتھی ہیں جھومتے جاتے
جیسے آویں جوان مدھ ماتے
جل زربفت کی ہے ساری شب
روکش انجم فلک ہیں سب
پلٹنیں جاتی ہیں برابر یوں
صف ہو مژگان دلبروں کی جوں
بال بستہ رکاب میں ہیں سرنگ
جن کے دیکھے کمیت چرخ ہے دنگ
خوش سواری و خوش جلو خوش راہ
باگ اچکی تو پھر نہ ٹھہری نگاہ
گردنوں میں پڑی حمائل گل
ہے جلو میں بصد شمائل گل
تھا بہت تیزگام اسپ خیال
رہ گیا دیکھ کر انھوں کی چال
تھے پری زاد چھیڑے اڑ جاویں
آنکھ پھیرو تو کل سے مڑ جاویں
کسمسانے میں باؤ سے آگے
ہاں کہے جیسے وہم جا لاگے
نوبتی اب طبیعتوں کو رجھاؤ
چل سواری کا ٹک اصول بجاؤ
چوب نقارے پر لگا اس ڈھب
کہ رکھیں گوش اس صدا پر سب
ایک دو دم بجائے جاؤ یوں ہی
دل کش آواز گائے جاؤ یوں ہی
پھینکتے ہیں جو دستہ دستہ گل
رہگذر میں ہیں رستہ رستہ گل
وہ جو دیوے تو کیا لیا جاوے
خوشہ خوشہ گہر دیا جاوے
ساقیا دے وہ مے جو باقی ہے
شادی ایسی بھی اتفاقی ہے
ہو مبارک یہ جشن خوش انجام
دور گردوں بہ کام عیش مدام
آ مغنی غزل سرائی کر
کچھ مزے سے بھی آشنائی کر
پڑھ غزل میرؔ کی جو ہووے یاد
ان کو تو اس میں کہتے ہیں استاد

غزل

موسم ابر ہو سبو بھی ہو
گل ہو گلشن ہو اور تو بھی ہو

کب تک آئینے کا یہ حسن قبول
منھ ترا اس طرف کبھو بھی ہو

ہو جو تیرا سا رنگ گل گاہے
ریجھیں ہم تب جب ایسی بو بھی ہو

ہے غرض عشق صرف ہے لیکن
شرط یہ ہے کہ جستجو بھی ہو

سرکشی گل کی خوش نہیں آتی
ناز کرنے کو ویسا رو بھی ہو

کس کو بلبل ہے دم کشی کا دماغ
ہو تو گل ہی کی گفتگو بھی ہو

دل تمناکدہ تو ہے پر میرؔ
ہو تو اس کی ہی آرزو بھی ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.