در بیان مرغ بازاں
دلی سے ہم جو لکھنؤ آئے
گرم پرخاش مرغ یاں پائے
پر و پرزہ درست و یکساں ہے
مرغ تصویر کا بھی حیراں ہے
مرغ ہے ایک ایک جیسے کلنگ
قاز و سارس سے جنگ جس کا ننگ
حوصلہ کس قدر حواصل کا
ذکر کیا کرگس شتردل کا
لات کی گھات کر جو مڑ جاوے
نسر طائر کا رنگ اڑ جاوے
زہرہ ققنس کا اس خطر سے آب
شب نہ سووے ہراس سے سرخاب
بکری سا فیل مرغ کو مارا
کب شتر مرغ سے ہوا چارہ
آدمی جو بڑے کہاتے ہیں
مرغ مارے بغل میں آتے ہیں
سرخہ و سبزوار کے سب مرغ
ہیں ثناگستر ایسے تھے کب مرغ
ہو جو کیں مرغ خانگی کے تئیں
مت سن اس ہرزہ چانگی کے تئیں
لات ماری جو کاٹ کر حلقوم
حیدرآباد تک پڑی ہے دھوم
کھا کے سینے کی مدعی سووے
نسر واقع کا واقعہ ہووے
نے ثنا سے بطیں ہی ہیں تر لب
مرغ عیسیٰ ہیں مدح خواں ہر شب
ٹینی کے سر پہ آج ٹیکا ہے
اس کے آگے کنیل پھیکا ہے
کیا عجب ان کی رہگذر کا فرش
ہوں پرافشاں تو ہو خروس عرش
اڑ گیا حلق کا جو لڑتے پوست
کی صدا مرغ دوست نے ہے دوست
کیس اس رنگ ہوتے ہیں محسوس
جوں گلستاں میں ہوویں تاج خروس
شور جنگ آوری کا تاکہسار
کبک کا گھر خروس پر ہے بار
کب ہیں پہلے سے مرغ زریں بال
حسن لاکھے کا سمجھے مرغ خیال
کرسکے وصف مرغ کیا کوئی
مرغ آمین کو دعاگوئی
وقر اتنا کہ دیر بچے لیں
جان دے کوئی تخم مرغ نہ دیں
مرغ بازوں سے ساز کر دیکھا
در الطاف باز کر دیکھا
ربط رکھا بہت انھوں کے ساتھ
ایک پر مرغ کا نہ آیا ہاتھ
مرغ کا مرغ ہووے مرغ انداز
مرغ ایسا ہو تو بجا ہے ناز
یعنی اپنا حریف جب پاوے
پر ہلانے نہ دیوے کھا جاوے
سینہ کیا سینہ بال کیا پر و بال
جیسے چشم خروس آنکھیں لال
بازی بدبد کے جب لڑاتے ہیں
کانٹے لوہے کے باندھ لاتے ہیں
آیا حلقوم کے کہ حلق کے پار
پھوٹا چھاتی میں ایک لگ کے دوسار
ہاتھ جس مرغ باز کے تھا وہ
پانی کرنے لگا ترارا وہ
کچھ جو ٹھہرا تو دم دیا ان نے
تعبیہ کرکے رکھ لیا ان نے
اور جو سست ہو ہوا تھیلا
دونوں بازو کے پر دیے پھیلا
ہوچکا ہوچکا ہوا یہ شور
ڈھلکی گردن گیا وہ سارا زور
پھیلا پانی میں وہ غم جاں سوز
دل زدہ پھر ہیں مرغ دست آموز
جانور رنگ باختہ سب ہیں
یعنی حیران فاختہ سب ہیں
مرغ قبلہ نما کو وحشت ہے
بال کھولے ہیں پر نہ طاقت ہے
ورنہ اڑ کر کہیں چلا جاتا
دیر اپنے مقام پر آتا
جمعے منگل کو پالی کی ہے دھوم
گلیوں میں روز حشر کا ہے ہجوم
مرغ بازوں کو ہے قیامت جوش
جس کو دیکھو تو مرغ در آغوش
مرغ لڑتے ہیں ایک دو لاتیں
سیکڑوں ان سفیہوں کی باتیں
ان نے پر جھاڑے یہ پھڑکنے لگے
ان نے کی نوک یہ کڑکنے لگے
وہ جو سیدھا ہوا تو یہ ہیں کج
ساتھ اس کے بدلتے ہیں سج دھج
مرغ کی ایک پرفشانی ہے
ان کی صد رنگ بدزبانی ہے
ایک بولے کہ کاری آئی چوٹ
ایک کہتا ہے بس گیا اب لوٹ
جھکتے ہیں آپ کو تڑاتے ہیں
لاتیں گویاکہ یہ ہی کھاتے ہیں
ایک کے منھ میں مرغ کی منقار
ایک کے لب پہ ناسزا گفتار
منھ پہ آیا جو کچھ وہ بکنے لگے
تیکھی نظروں سے سب کو تکنے لگے
طرفہ ہنگامہ طرفہ صحبت ہے
بعد نصف النہار رخصت ہے
کھانچے سر پر بغل میں مارے مرغ
لے گئے جیتے ہارے سارے مرغ
پھر جو روز معین آوے گا
نالہ مرغ سحر سناوے گا
عالم آوے گا گرد ویسا ہی
گرم ہنگامہ ہوگا ایسا ہی
میرؔ ان کا نہ ہووے گو قائل
مرغ معنی پہ وہ بھی ہے مائل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |