دریا و کوہ و دشت و ہوا ارض اور سما

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دریا و کوہ و دشت و ہوا ارض اور سما
by نظیر اکبر آبادی

دریا و کوہ و دشت و ہوا ارض اور سما
دیکھا تو ہر مکاں میں وہی ہے رہا سما

ہے کون سی وہ چشم نہیں جس میں اس کا نور
ہے کون سا وہ دل کہ نہیں جس میں اس کی جا

قمری اسی کی یاد میں کو کو کرے ہے یار
بلبل اسی کے شوق میں کرتی ہے چہچہا

مفلس کہیں غریب تونگر کہیں غنی
عاجز کہیں نبل کہیں سلطاں کہیں گدا

بہروپ سا بنا کے ہر اک جا وہ آن آن
کس کس طرح کے روپ بدلتا ہے واہ وا

ملک رضا میں کر کے توکل کی جنس کو
بیٹھیں ہیں سب اسی کی دکانیں لگا لگا

سب کا اسی دکان سے جاری ہے کاروبار
لیتا ہے کوئی حسن کوئی دل ہے بیچتا

دیکھا جو خوب غور سے ہم نے تو یاں نظیرؔ
بازار مصطفیٰ ہے خریدار ہے خدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse