دریا و موج سا کبھی ہم سے جدا نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دریا و موج سا کبھی ہم سے جدا نہ ہو
by نسیم میسوری

دریا و موج سا کبھی ہم سے جدا نہ ہو
اے بت خدا تلک بھی ترا آشنا نہ ہو

محفل میں اس پری کی جو یہ دل جلا نہ ہو
یا رب شراب ناب میں ہی کچھ مزا نہ ہو

اس سبز خط کے بوسے لئے میں نے خواب میں
یا رب غبار دل میں کہیں آ گیا نہ ہو

پلوا رہے ہو روبرو غیروں کو جام مے
اور کہتے ہو مجھے تو مری جاں خفا نہ ہو

میری روش پہ کس لئے بہکا ہے کیا ہوا
مجنوں سے کہہ دو چپ بھی ہو یوں باؤلا نہ ہو

نکہت سے مشک و عطر کی دنیا مہک گئی
پانی نہانے میں ترا جوڑا کھلا نہ ہو

مر ہی گیا ادھر جو مرا نامہ بر گیا
قاصد خدا کے واسطے تو بھی فنا نہ ہو

بخت سیہ ذلیل ہمیں یوں بھی کرتے ہیں
جس شب وہ آئے گھر کو اسی شب دیا نہ ہو

لالہ ہو ارغواں ہو سخن ہو گلاب ہو
چمپا ہو یاسمن ہو مگر دیلیا نہ ہو

آب رواں ہو چاندنی ہو سبزہ زار ہو
نرگس کی طرح غیر کوئی دیکھتا نہ ہو

ساقی ہو مے ہو گائیں پری زاد سب بہار
ساغر سے جلد چلنے میں چرخ دوتا نہ ہو

پریوں کا رقص روبرو ہوتا رہے مدام
پہلو سے یار لب سے پیالہ جدا نہ ہو

سامان عیش گر یہ میسر ہو اے نسیمؔ
ہٹ دھرمی ہے زباں پہ جو شکر خدا نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse