دریا میں ڈوب جاوے کہ یا چاہ میں پڑے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دریا میں ڈوب جاوے کہ یا چاہ میں پڑے
by میر حسن دہلوی

دریا میں ڈوب جاوے کہ یا چاہ میں پڑے
اے عشق پر نہ کوئی تری راہ میں پڑے

مت پوچھ جور غم سے دل ناتواں کا حال
بجلی تو دیکھی ہوگی کبھی کاہ میں پڑے

اک دم بھی دیکھ سکتا نہیں ہم کو اس کے پاس
خاک اس فلک کے دیدۂ بد خواہ میں پڑے

جو دوستی کے نام سے رکھتا ہو دشمنی
دیوانہ ہو جو اس کی کوئی چاہ میں پڑے

آ جا کہیں شتاب کہ مانند نقش پا
تکتے ہیں راہ تیری سر راہ میں پڑے

جلوے دو چند ہوویں شب ماہ کے ابھی
اس ماہرو کا عکس اگر ماہ میں پڑے

سلگے ہے نیم سوختہ جیسے دھوئیں کے ساتھ
جلتے ہیں یوں ہم اپنی حسنؔ آہ میں پڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse