دریا طوفان بہہ رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دریا طوفان بہہ رہا ہے
by حاتم علی مہر

دریا طوفان بہہ رہا ہے
آنکھوں کا عجیب ماجرا ہے

زاہد کو غرور زہد کا ہے
رندوں کو خدا کا آسرا ہے

ذکر ان کے دہن کا جا بجا ہے
ہے کچھ بھی نہیں یہ بات کیا ہے

دیوار کا ان کی سایہ ٹھہرا
اک یہ بھی سعادت ہما ہے

ہم چشمی اور ان کی انکھڑیوں سے
نرگس تجھے کچھ بھی سوجھتا ہے

پاؤں کے ہمارے گو کھروسی
اک اک کانٹا کھٹک گیا ہے

الفت ہے کھلی ہوئی بتوں سے
اللہ سے مہرؔ کیا چھپا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse