دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
by محمد ابراہیم ذوق

دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا

بل بے گداز عشق کہ خوں ہو کے دل کے ساتھ
سینے سے تیرے تیر کا پیکان بہہ گیا

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا

ہے موج بحر عشق وہ طوفاں کہ الحفیظ
بیچارہ مشت خاک تھا انسان بہہ گیا

دریائے اشک سے دم تحریر حال دل
کشتی کی طرح میرا قلم دان بہہ گیا

یہ روئے پھوٹ پھوٹ کے پانی کے آبلے
نالہ سا ایک سوئے بیابان بہہ گیا

تھا تو بہا میں بیش پر اس لب کے سامنے
سب مول تیرا لعل بدخشان بہہ گیا

کشتی سوار عمر ہوں بحر فنا میں ذوقؔ
جس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیا

تھا ذوقؔ پہلے دہلی میں پنجاب کا سا حسن
پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse