درپن دیا ہوں دل کا میں اس دل ربا کے ہاتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درپن دیا ہوں دل کا میں اس دل ربا کے ہاتھ
by داؤد اورنگ آبادی

درپن دیا ہوں دل کا میں اس دل ربا کے ہاتھ
درپن میں وہ پیا ہے وہ درپن پیا کے ہاتھ

اس قبلہ رو کی دیکھ کے محراب ابر واں
صف باندھ کھل رہے ہیں مژہ جیوں دعا کے ہاتھ

ہر وقت بے حجاب ہو کیوں کر کرے نگاہ
ہے اختیار چشم پیا کا حیا کے ہاتھ

کس رنگ سوں لگے ہے کف پا کوں شوخ کی
دل خون ہو رہا ہے ہمارا حنا کے ہاتھ

گلگوں قبا نہ مار تغافل کی تیغ سوں
ہے قتل عاشقاں کا تری یک ادا کے ہاتھ

برجا ہے برگ گل سوں کفن اس کوں ہوئے نصیب
جو کوئی ہوا شہید وو گل گوں قبا کے ہاتھ

ہے چاک چاک غنچۂ دل آج آہ سوں
جیوں چاک پیرہن کوں کیا گل صبا کے ہاتھ

کہتے ہیں عاشقاں یو مرا حال دیکھ کر
شاید توں دل دیا ہے کسی بے وفا کے ہاتھ

درکار نیں ہے مجھ کوں کبوتر کی قاصدی
بھیجا ہوں گل بدن کوں میں نامہ صبا کے ہاتھ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.