درویش قید غم میں دل زار ہو گیا
درویش قید غم میں دل زار ہو گیا
آزاد ہو گیا جو گرفتار ہو گیا
یوسف بھی لاکھ جاں سے خریدار ہو گیا
تو گھر میں غل ترا سر بازار ہو گیا
رخنہ طریق عشق میں ڈالا جو ہجر نے
ناسور دل کا روزن دیوار ہو گیا
قاتل نے قتل بھی جو سبک جان کر کیا
لاشہ برنگ روح سبکبار ہو گیا
اگلا جو زہر افعی گیسوئے یار نے
ہر موئے مار زلف سیہ مار ہو گیا
سویا ہیں وصل شوق میں جاگا وہ ناز سے
میں بے خبر ہوا وہ خبردار ہو گیا
بھاگا گیا نہ لاش پہ غش کھا کے گر پڑا
قاتل یہ میرے خوں میں گرفتار ہو گیا
عشق صنم گلے کا مرے ہار ہو گیا
گردن کا تار رشتۂ زنار ہو گیا
پیغام وصل ہی میں خفا یار ہو گیا
اقرار ہو گیا نہ کچھ انکار ہو گیا
شام و سحر چمکنے جو داغ جگر لگا
خورشید روز و شمع شب تار ہو گیا
کار رہ خدا نہ ہوا موت آ گئی
غفلت سے بندہ دیدۂ بے دار ہو گیا
قاتل جو گل کھلانے لگا شاخ تیغ سے
مقتل بھی دم میں تختۂ گلزار ہو گیا
کھودی جو نہر کوہ کن جیب چاک نے
سو جا سے ٹکڑے دامن کہسار ہو گیا
یاد بتاں سے کعبۂ دل بت کدہ ہوا
تار نفس بھی رشتۂ زنار ہو گیا
رویا طلوع مہر تن غور پر جو عرشؔ
آب رواں سے جامۂ زرتار ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |