درمیان جسم و جاں ہے اک عجب صورت کی آڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درمیان جسم و جاں ہے اک عجب صورت کی آڑ
by ساحر دہلوی

درمیان جسم و جاں ہے اک عجب صورت کی آڑ
مجھ کو دل کی دل کو ہے میری انانیت کی آڑ

آ گیا ترک خودی کا گر کبھی بھولے سے دھیان
دل نے پیدا کی ہر ایک جانب سے ہر صورت کی آڑ

دیتے ہیں دل کے عوض وہ درد بہر امتحاں
لیتے ہیں نام خدا اپنی طمانیت کی آڑ

نفس پرور کرتے ہیں بدنام نام مے کشی
پردۂ پندار میں لیتے ہیں کیفیت کی آڑ

پردہ داری چشم نا محرم سے تھی مد نظر
درمیاں میں ڈال دی ہے نور نے حیرت کی آڑ

دیدنی جو کچھ ہے جلوہ دیکھ چشم پاک میں
نور نے وحدت میں رہ کر لی ہے کیوں کثرت کی آڑ

جب نہان و آشکارا جلوۂ جانانہ ہے
سب ریاکاری ہے ساحر خلوت و جلوت کی آڑ


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.