درمدح شاہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درمدح شاہ
by مرزا غالب

اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گونہ بشارت
جو عقدہ دشوار کہ کوشش سے نہ وا ہو
تو وا کرے اس عقدے کو سو بھی بہ اشارت
ممکن ہے کرے خضر سکندر سے ترا ذکر
گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت
آصف کو سلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخر سلیماں جو کرے تیری وزارت
ہے نقش مریدی ترا فرمان الہی
ہے داغ غلامی ترا توقیع امارت
تو آب سے گر سلب کرے طاقت سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تاب شرارت
ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتش سوزاں میں حرارت
ہے گرچہ مجھے نکتہ سرائی میں توغل
ہے گرچہ مجھے سحر طرازی میں مہارت
کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم دعا پر
قاصر ہے ستایش میں تری میری عبارت
نو روز ہے آج اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگی صنعت حق اہل بصارت
تجھ کو شرف مہر جہاں تاب مبارک
غالبؔ کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse