درس محبت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درس محبت  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

دوست ملا تھا تجھ کو کیسا حیف اتنا بھی یاد نہیں
جان فدا کرتا تھا جس پر دل میں اس کی یاد نہیں
گردش دوراں نے جب اس کو آہ شکستہ حال کیا
دیکھ کر اس کے حال زبوں کو تو نے کچھ نہ ملال کیا
کون شکستہ حال کہاں ہے یہ بھی دھیان آیا نہ تجھے
آہ تصور نے ایسے محسن کے تڑپایا نہ تجھے
پاس تھا اپنے قول کا جس کو تو نے کچھ اس کا پاس کیا
آمد و رفت دیرینہ کا بھول کے بھی احساس کیا
اس کے درد سے واقف ہو کر تو نے خبر کیا لی اس کی
قرض محبت جان کے دل سے کیا کوئی خدمت کی اس کی
دل تیرے اس دوست کا ناحق وقف سحر لسانی تھا
میری سمجھ میں اب آیا وہ جمع و خرچ زبانی تھا
ناداں انسان تیری دولت تیرے ساتھ نہ جائے گی
لیلائے مطلب دور رہے گی تیرے پاس نہ آئے گی
حصر فقط تجھ ہی پر کیا ہے تو ہی اک زر دوست نہیں
دوست بہت ملتے ہیں لیکن ان میں اکثر دوست نہیں
دوست نہیں جو نام کی خاطر اپنے دوست کے کام آئے
دوست وہ ہے لوگوں کی زباں پر جس کا مثالاً نام آئے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse