درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
by حکیم محمد اجمل خاں شیدا

درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی

ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت
میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی

کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق
میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی

کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے
پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی

جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ
موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی

انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے
گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی

محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں
برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی

میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں
انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی

فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے
بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی

باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے
ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی

مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں
ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse