درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
by وحشت کلکتوی

درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
عرض اتنی ہے کہ اس راز کا چرچا نہ کریں

لاکھ غافل سہی پر ایسے بھی ہم کور نہیں
کہ چمن دیکھ کے ذکر چمن آرا نہ کریں

عقل و دانش سے تو کچھ کام نہ نکلا اپنا
کب تک آخر دل دیوانہ کا کہنا نہ کریں

وہ نگاہیں عجب انداز سے ہیں عشوہ فروش
غم پنہاں کو ہمارے کہیں رسوا نہ کریں

تیرے آشفتہ سر ایسے بھی نہیں سودائی
کہ دل و دیں کے لئے زلف کا سودا نہ کریں

میں نے بیہودہ توقع کی سزا پائی ہے
کچھ خیال آپ مری حسرت دل کا نہ کریں

میرے ارمانوں کو کاش اتنی سمجھ ہو وحشتؔ
کہ ان آنکھوں سے مروت کا تقاضا نہ کریں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse