درد پی لیتے ہیں اور داغ پچا جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد پی لیتے ہیں اور داغ پچا جاتے ہیں
by قائم چاندپوری

درد پی لیتے ہیں اور داغ پچا جاتے ہیں
یاں بلانوش ہیں جو آئے چڑھا جاتے ہیں

دیکھ کر تم کو کہیں دور گئے ہم لیکن
ٹک ٹھہر جاؤ تو پھر آپ میں آ جاتے ہیں

جب تلک پاؤں میں چلنے کی ہے طاقت باقی
حال دل آ کے کبھو تجھ کو دکھا جاتے ہیں

عشق کا کیونکہ بتاں سے کرے اخفا کوئی
ڈھب سے نظروں میں یہ کافر وہیں پا جاتے ہیں

طرح سوزن کی جو ہیں رشتۂ الفت میں پھنسے
جس طرف سیر کریں رو بہ قضا جاتے ہیں

کون ہو غنچہ صفت اپنے صبا کا مرہون
جیسے تنگ آئے تھے ویسے ہی خفا جاتے ہیں

رہیو ہشیار تو لپ جھپ سے بتاں کی قائمؔ
بات کی بات میں واں دل کو اڑا جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse