درد مندوں سے نہ پوچھو کہ کدھر بیٹھ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد مندوں سے نہ پوچھو کہ کدھر بیٹھ گئے
by میر شمس الدین فقیر

درد مندوں سے نہ پوچھو کہ کدھر بیٹھ گئے
تیری مجلس میں غنیمت ہے جدھر بیٹھ گئے

ہے غرض دید سے یاں کام تکلف سے نہیں
خواہ ادھر بیٹھ گئے خواہ ادھر بیٹھ گئے

دیکھا ہووے گا مرے اشک کا طوفاں تم نے
لاکھ دیوار گرے سینکڑوں گھر بیٹھ گئے

کس نظر ناز نے اس باز کو بخشی پرواز
سینکڑوں مرغ ہوا پھاند کے پر بیٹھ گئے

کم ہے آواز ترے کوچہ کے باشندوں کی
نالہ کرنے سے گلے ان کے مگر بیٹھ گئے

مفت اٹھنے کے نہیں یار کے کوچہ سے فقیرؔ
جب کہ بستر کو جما کھول کمر بیٹھ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse