Jump to content

درد منت کش دوا نہ ہوا

From Wikisource
درد منت کش دوا نہ ہوا
by مرزا غالب
299007درد منت کش دوا نہ ہوامرزا غالب

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب، “کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا”

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، “دلستاں” روانہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا!


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.